آج ہر طرف بدعت کا شور ہے، بعض لوگ ہر چیز
کو بلادھڑک بدعت کہہ دیتے ہیں تسبیح، جواذکار کے شمار کرنے کا
آلہ ہے، اس پر بھی ایک طبقہ نے بدعت کا لیبل چسپاں کرنے کی
سعی نا مسعودکی ہے، احادیث ِمبارکہ وآثارِ صحابہ وتابعین
کی من گھڑت تشریح کے ذریعہ اس کے استعمال کو بدعت کہنا شروع کردیا،ذیل
میں اسی کے متعلق سرسری جائزہ پیش کیاگیا ہے،
واضح رہے کہ آلہٴ تسبیح بذات خود کوئی مقصود نہیں؛ بلکہ یہ
ذکر، تسبیح، تکبیر، تہلیل، تقدیس شمار کرنے کا وسیلہ
وذریعہ ہے، اوروسائل کا حکم مقاصد کے تابع ہوتا ہے، لہٰذا حرام کا وسیلہ
بھی حرام ہوگا، اور واجب کا وسیلہ بھی واجب ہوتا ہے، بعض دفعہ
اذکار شمار کرنے میں دقت ہوتی ہے اور اذکار کی مخصوص مقدار کی
بھی اہمیت احادیث ِمبارکہ میں وارد ہوئی ہے، اسی
لیے تسبیح کی ضرورت ہوتی ہے (وصول التھانی ص:۴۹) ۔
تسبیح کے
سلسلہ میں احادیث:
احادیث مبارکہ میں جہاں یہ
بات مذکور ہے کہ ذکر میں کثرت مطلوب ہے، وہیں یہ بھی
مذکور ہے کہ تسبیح کے لیے قرنِ اول ہی سے کھجور کی گٹھلیوں
اور کنکریوں کے استعمال کا چلن تھا، ایک حدیث امام حاکم نے اپنی کتاب میں ذکر کی
ہے: حدثنا اسماعیل بن أحمد الجرجانی ثنا محمد بن الحسن
بن قتیبة العسقلانی ثنا حرملة بن یحیی نبأنا ابن وھب
أخبرنی عمروبن الحارث أن سعید بن أبی ھلال حدثہ عن عائشة بنت
سعد بن أبي وقاص رضی اللہ عنہ عن أبیھا: أنہ دخل مع
النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی إمرأة وبین یدیھا
نویٰ أو حصی أخبرک بما ھو یسر علیک من ھذا أو أفضل
الخ (مستدرک علی الصحیحین۱/۷۳۲)
۲۰۰۹ کتاب الدعاء علامہ ذھبی نے اس حدیث پر سکوت اختیار کیا
ہے۔
اس حدیث کی سند پر کلام
کرتے ہوئے شیخ البانی نے کہا کہ اس حدیث میں حاکم کی
سند میں خزیمہ ہیں، اور خزیمہ مجہول ہیں، نیز
اس حدیث پر علامہ ذہبی نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے غلطی
کی ہے؛ اس لیے یہ حدیث لائق استدلال نہیں، (وصول
التہانی ص:۱۰) نیز شیخ
البانی کا دعویٰ ہے کہ اس روایت میں بعضوں نے خزیمہ
کا تذکرہ چھوڑ دیا ہے اس لحاظ سے یہ سند منقطع ہوگئی؛ اس لیے
حافظ مزی نے عائشہ بنت سعد کو ابن ابی ہلال کے شیوخ میں
ذکر نہیں کیا، لہٰذا یہ سند جہالت یا انقطاع سے خالی
نہیں ہے، پھر حدیث پر صحیح یا حسن ہونے کا حکم کیسے
لگے گا؟ نیز اس سے بڑھ کر جہالت یہ کہ جنہوں نے تسبیح کو سنت
لکھا ہے انہوں نے تجاہل ِعارفانہ سے کام لیا ہے، معاصر مقلدین میں
ہواء پرست شیخ عبد اللہ الغماری نے ان حقائق سے اعراض کیا پھر
اپنی کتاب میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے؛ تاکہ اس سے اپنے مریدین
کے لیے تسبیح جائز ہو، پھر یہ بھی جائز قرار دیں کہ
تسبیح گردن میں لٹکانا صحیح ہے جیسا کہ بعض مشائخ طرق کا
اس پر عمل ہے( السلسلة الضعیفہ ۱/۸۳) نیزشیخ البانی نے سعید بن ابی
ہلال کی بھی تضعیف کردی (ایضا) اس حدیث پر
البانی کا کلام کا مشاہدہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ البانی کسی
بھی طرح اس حدیث کو ضعیف قرار دینے پر مُصرہیں، اس
کے لیے مقدور بھر کوشش بھی کر ڈالی۔
اول تو انھوں نے خزیمہ کو مجہول
قرار دیا، جب کہ بعض سندوں میں خزیمہ کا سرے سے ذکر ہی نہیں،
جب خزیمہ کا ذکر نہ ملا تو انہوں نے خزیمہ کے عدمِ وجود کا دعویٰ
کرتے ہوئے حدیث کو منقطع قرار دیا، پھر یہ دعوی کیا
کہ سعید بن ابی ہلال کے شیوخ میں عائشہ بنت سعد نہیں
ہیں، اس کے باوجود اطمینان نہ ہوسکا تو سعیدبن ابی ہلال ہی
کو مختلط قرار دیا، نیز حدود سے تجاوز کرتے ہوئے امام حاکم کو غلط ٹھہریا، علامہ ذہبی
کو بھی سکوت کا ملزم قرار دیا۔
شیخ البانی
کے دعاوی کا جائزہ :
ابوسعید اور عائشہ کے درمیان
انہوں نے خزیمہ کا تذکرہ کیا ہے؛ حالانکہ حاکم کی نقل کردہ روایت
میں اس کا کوئی تذکرہ ہی نہیں، حاکم کی سند میں
خزیمہ کو فرض کرتے ہوئے خزیمہ کو مجہول قرار دیا گیا،
رواةِ سند پر جو سابق میں ذکر کی گئی ہے نشان زدہ کو مکرر پڑھیں
تو پتہ چلے گا کہ خزیمہ کا نام ونشان بھی نہیں ہے، دیگر
بقیہ راوی ثقہ ہیں، (وصول التہانی ص:۱۰) خزیمہ کا وجود اور اس پر جہالت کا حکم مارے گھٹنہ پھوٹے
سر، اولاً خزیمہ موجود ہی نہیں پھر اس پر جہالت کا دعوی کیسے
صحیح ہوگا؟
البتہ امام ترمذی نے اس حدیث
کو حسن غریب من حدیث سعد کہا ہے اور اس میں خزیمہ کا ذکر
ہے، (ترمذی: ۳۴۹۱) باب دعاء النبی (ابوداوٴد: ۱۲۸۲) باب التسبیح ، ابوداوٴد نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا
ہے۔
”حاکم کی سند میں خزیمہ
مذکور ہیں“ اس مفروضے پر اپنی عمارت قائم کرتے ہوئے شیخ البانی
نے دوسرا دعوی کیا کہ جن اسنادات میں خزیمہ کا ذکر نہیں
ہے وہ احادیث منقطع ہیں، اس حدیث کو حافظ مزی نے تہذیب الکمال میں خزیمہ
کی صراحت کے ساتھ ذکر کرنے کے باوجود اس پر کوئی کلام نہیں کیا،
اس کے باوجو د البانی کا دعویٰ جہالت سمجھ سے بالاتر ہے،
حالانکہ حافظ مزی
نے امام ترمذی
کا قول نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے، (تہذیب الکمال ۸/۲۷۴) باب بن اسمہ خزرج وخزیمہ،
نیز یہ علت بھی بیان
کی کہ سعید بن ابی ہلال کے شیوخ میں عائشہ بنت سعد
کا کوئی تذکرہ نہیں، جب البانی کا مفروضہ ہی باطل ہے تو ایسی
صورت میں دیگر احادیث کو منقطع قرار دینا کیسے درست
ہوگا، جہاں تک سعید بن ابی ہلال کے شیوخ کا مسئلہ ہے تو اس
سلسلہ میں یہ ذکر کردینا مناسب ہے کہ عائشہ بنت سعد کی
وفات (۱۱۷ھ) میں ہوئی ہے یہ بھی مدنیہ ہیں
(رواة التہذیبین: ۸۶۳۴) اور سعید بن ابی ہلال کی پیدائش ۷۰ھ میں اور وفات (۱۳۰ھ) میں ہوئی ہے، بعض نے (۱۴۹ھ) بھی کہا ہے یہ بھی مدنی راوی
ہیں (رواة التہذیبین: ۲۴۱۰) اب غور کیجئے کہ سعید بن ابی ہلال نے حضر
عائشہ بنت سعد کی زندگی کے تقریباً ۴۷ سال کو پایا، جبکہ دونوں مدنی ہیں، تو کیا
یہاں پر دونوں کا لقاء ممکن نہیں، جب دونوں کا لقاء ممکن ہے تو کیوں
”امکانِ لقاء“ پر مدار رکھتے ہوئے اس حدیث کو معتبر نہیں قرار دیا
جائیگا؟ اگر بالفرض خزیمہ نہ بھی ہوں تو ایسی صورت
میں قواعد حدیث کے مطابق سعید بن ابی ہلال کی روایت
عائشہ بنت سعد سے بھی معتبر ہونی چاہیے، چونکہ دونوں راوی
مدنی ہیں معاصرت وقربت اس بات کا تقاضہ کررہی ہے دونوں کا لقاء
ممکن ہے، اس لیے سعید بن ابی ہلال سے روایت قبول کرنے میں
کوئی مانع نہیں ہے۔
شیخ البانی نے حدیث
کو معلل قرار دیا، حالانکہ اس حدیث کے دیگر شواہد بھی
موجود ہیں، اس حدیث کو مسند بزار میں ذکر کیا گیا
ہے، اس پر یہ کلام منقول ہے کہ یہ حدیث ہم صرف عائشہ بنت سعد سے
اسی طرح جانتے ہیں (مسند بزار: ۱۰۷۱) باب قول سبحان اللہ ،نیز امام ابن شیبہ نے بھی اس کا ایک شاہد ذکر کیا
ہے: عن أبی نضرة
عن رجل من الطفاوة قال: نزلت علی أبی ھریرة ومعہ کیس فیہ
حصی أو نوی، فیقول: سبحان اللہ، سبحان، حتی إذا نفد ما فی
الکیس ألقاہ إلی جاریة سوداء فجمعتہ ثم دفعتہ إلیہ (ابن شیبہ:
۷۷۳۴ باب فی عقد التسبیح تحقیق محمد عوامہ )
ترجمہ: ابو نضرہ طفاوہ قبیلہ کے ایک
آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ابوہریرة کے پاس گئے ان کے پاس ایک صندوق میں
کنکریاں اور کھجور کی گٹھلیاں تھیں، اور وہ سبحان اللہ
کہہ کر شمار کررہے تھے، جب وہ ختم ہوجاتیں تو وہ ایک سیاہ باندی
کو دیدیتے وہ اس کو جمع کرکے دوبارہ دیدیتی۔
سعید بن ابی
ھلال پر کلام:
البانی حدیث پر کلام کرتے
ہوئے سعید بن ابی ھلال پر کلام کر گئے، ان کی روایت کو
مردود ونامعتبر قرار دیا، حالانکہ خود ان کا یہ دعویٰ
مردود ہے علامہ ذہبی
فرماتے ہیں: سعید بن ابی ہلال ثقہ ہیں، معروف ہیں
ان کی احادیث صحاحِ ستہ میں ہیں ․․․
صرف ابن حزم نے ان پر کلام کیا ہے، (میزان الاعتدال ۲/۱۶۲) ۳۲۹۰ ایک دوسرے موقع پر علامہ ذہبی فرماتے ہیں یہ امام ، حافظ،
فقیہ، اور ثقات میں سے ایک ہیں (سیر اعلام النبلاء ۶/۳۰۴) سعید
سے صحاحِ ستہ میں روایت ذکر کی گئی ہے، ابن حجر نے ان کے
سلسلہ میں فرمایا: یہ صدوق ہیں، نیز ابن حزم نے جو
ان کی تضعیف کی ہے اس کی سابق میں کوئی نظیر
نہیں ملتی، صرف ساجی نے امام احمد کے حوالے سے اختلاط کی
بات لکھی ہے، (رواة التہذیبین: ۲۴۱۰) ایک دوسرے موقعہ پر ابن حجر (متوفی ۸۵۲ھ) نے فرمایا: امام بخاری کی تعلیق میں ان سے
روایت مذکور ہے، وہ بھی متابعت کے لیے․․․ ابن
سعد نے ان کے سلسلہ میں فرمایا: یہ ان شاء اللہ صدوق ہیں،
ساجی نے فرمایا: یہ صدوق ہیں امام احمد نے ان کو مختلط
قرار دیا، البتہ عجلی،بصری، ابن خزیمہ، دارقطنی، بیہقی،
خطیب، ابن عبد البر نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے، ابن حزم نے فرمایا:
یہ قوی نہیں ہیں شاید کہ انہوں نے امام احمد کے قول پر اعتمال کیا ہو( تہذیب
التہذیب ۴/۸۴) حافظ
ابن حجر کے اندازِ کلام پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ابن حجر نے خود سعید
کو صدوق وثقہ ہی نہیں کہا بلکہ ابن حزم کی تضعیف کو غلط
ٹھہرایا، انہوں نے صرف امام احمد
کی بات پر اعتماد کیا ہے؛ حالانکہ دیگر ائمہ جرح وتعدیل
نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے، نیز شیخ حماد انصاری نے
ساجی اور ابن حزم کا کلام ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ شیخ البانی
نے بھی سعید
کی تضعیف میں ابن حزم کا اتباع کیا ہے، اور اس سلسلہ میں
البانی غلطی پر ہیں، (الکواکب النیرات ۱/۴۶۸) واضح رہے کہ سعید بن ابی ہلال رواة بخاری میں
سے ہیں ان کے واسطے سے امام بخاری نے کئی مقامات پر اپنی بخاری
شریف میں روایتیں نقل کی ہیں، تفصیل کے
لیے دیکھئے، احادیث نمبر: (۱) ۶۸۸۶ ، (۲) ۶۸۳۸، (۳) ۶۴۲۷، (۴) ۶۲۸۲، (۵) ۶۰۳۹، (۶) ۴۵۳۹، (۷) ۳۲۸۳، (۸) ۳۰۴۵، (۹) ۱۷۵۷، (۱۰) ۱۳۳، نیز علامہ ذہبی اور امام حاکم کو غلط ٹھہرانا سرے سے غلط
ہے، البانی غلطی پر رہتے ہوئے غلطی کا الزام امام حاکم پر ڈال رہے ہیں، یہ ان کی دیدہ دلیری
ہے، (وصول التہانی ص:۱۰) ۔
حدیث نمبر(۲)
ایک اور حدیث جس پر کلام
کرتے ہوئے شیخ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، اور اس سے
استدلال کوغلط ٹھہرایا، وہ حدیث یوں ہے: حدثنا محمد بن بشار حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث
حدثنا ھاشم وھو ابن سعید الکوفی حدثنی کنانة مولی صفیة
قال: سمعت صفیة تقول: دخل علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم وبین یدی
أربعة آلاف نواة اسج بھا، فقال: لقد سبحت بھذا ألا اعلمک باکثر مما سبحت بہ فقلت
بلیٰ، علمني، فقال: قولی، سبحانہ اللہ عدد خلقہ ( سنن الترمذی
۳۴۷۷ باب فی دعاء النبی)۔
ترجمہ: کنانہ جو صفیہ کے غلام ہیں
انہوں نے صفیہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ فرماتی ہیں: ایک
دفعہ آپ ا میرے پاس آئے، اور وہ میرے سامنے چار ہزار کھجور کی
گھٹلیاں تھیں جن سے میں تسبیح پڑھ رہی تھی،
آپ ا نے فرمایا: تم ان سے تسبیح پڑھ رہی ہو، تمہیں ان سے
زیادہ تسبیح والی چیز سمجھاوٴں، تو صفیہ نے
اثبات میں جواب دیا، آپ ا نے فرمایا: سبحانہ اللہ عدد خلقہ پڑھا
کرو۔
امام ترمذی نے اس حدیث پر کلام کرتے ھوئے فرمایا،
یہ حدیث غریب ہے، ہمیں حضرت صفیہ سے اسی واسطے سے پہونچی ہے،
اس پر امام حاکم نے کلام فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد
ہے، اس کو بخاری اور مسلم نے ذکر نہیں کیا ہے، اور اس حدیث
کے لیے اس سے اچھی سند سے شاہد بھی موجود ہے، اس پر علامہ ذہبی نے سکوت فرمایا ہے۔ (مستدرک
علی الصحیحین مع التعلیق۱/۷۳۲ کتاب الدعاء) ۔
اس حدیث کی سندپر گفتگو
کرتے ہوئے شیخ البانی نے حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا،
اور کنانہ کو مجہول قرار دیا ، اور یہ بھی کہا کہ کنانہ جو حضرت
صفیہ کے غلام ہیں ان کی تضعیف
حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کی ہے، صرف اور صرف
ابن حبان نے ان کو ثقہ قرار دیا، اور امام حاکم نے اس حدیث کو اپنی
مستدرک میں ذکر کیا ہے، جس کو صحیح الاسناد قرار دیا، جس
پر علامہ ذہبی
نے خاموشی اختیار کی ہے، اس پر البانی نے تعجب وحیرت
کا بھی اظہار کیا ہے۔ (السلسلة الضعیفہ ۱/۸۳)
ذیل میں کنانہ کی جہالت پر
ائمہ جرح وتعدیل کا کلام ذکر کیاجاتا ہے رواة التہذیبین
نامی کتاب میں کنانہ پر کلام کا ذکر کرتے ہوئے مذکور ہے: کنانہ جو نبیہ
نامی شخص کے بیٹے ہیں آپ ا کی زوجہ محترمہ صفیہ بنت حیی ابن اخطب کے غلام ہیں،
تابعین کے تیسرے طبقہ میں ان کا شمار ہے، ان سے امام بخاری نے الادب المفرد میں روایت
نقل کی ہے امام ترمذی نے بھی ان سے روایت ذکر کی
ہے، ابن حجر نے ان کو مقبول قرار دیا؛ البتہ ازدی نے بلا دلیل
ان کو ضعیف قرار دیا، علامہ ذہبی نے ان کا شمار ثقات میں کیا
ہے، (رواة التہذیبین ۵۶۶۹) ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی ۸۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ ابن عدی نے ان کی حدیث
ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ثقہ راویوں میں ایک کنانہ ہیں جن
سے امام ترمذی
نے بھی روایت کی ہے، (تہذیب التہذیب ۸/۴۰۴)۔
امام جمال الدین مزی (متوفی
۷۴۲ھ) نے لکھا ہے: ثقہ راویوں میں ایک کنانہ ہیں
جو صفیہ کے غلام ہیں۔ (تہذیب الکمال للمزی ۲۴/۲۳۱) شیخ البانی نے بڑی جرأت ودیدہ دلیری
کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حافظ ابن حجر نے بھی کنانہ کو تقریب
التہذیب میں ضعیف قرار دیا ہے، حالانکہ ابن حجر کا کلام
تقریب التہذیب میں اس طرح ہے: کنانہ مولی صفیة یقال اسم أبیہ
نبیہ مقبول ضعفہ الإزدی بلا حجة (تقریب التہذیب ۲/۴۶۲)
ایک جانب ابن حجر نہ صرف کنانہ کو ثقہ
قرار دے رہے ہیں؛ بلکہ ضعیف کہنے والوں کی تردید بھی
کررہے ہیں، اور شیخ البانی اپنی نفسانی خواہش کی
تکمیل کے لیے ابن حجر پر بھی الزام دیتے ہوئے نہیں
شرمارہے ہیں۔
نیز شیخ البانی نے
اپنی کتاب میں کنانہ پر کلام کرتے ہوئے کہا کہ ان کی صرف ابن
حبان نے توثیق کی ہے کسی اور نے انہیں ثقہ قرار نہیں
دیا ہے؛ حالانکہ خود شیخ البانی کا یہ حال ہے کہ وہ کبھی
صرف ابن حبان کی توثیق کو قبول کرتے ہیں اور جب اپنے مطلب کے
خلاف کوئی بات نظر آئے تو ابن حبان کی توثیق کو رد کردیتے
ہیں، (وصول التہانی ص:۱۶) الغرض یہ دونوں حدیثیں حسن لغیرہ ہیں
ان سے استدلال کرنا درست ہے، اورتسبیح کے سلسلہ میں شیخ البانی
کی تمام تر باتیں ناقابلِ اعتماد واعتبار ہیں۔ (وصول
التہانی ص: ۱۹)
تسبیح فقہاء
ومحدثین کی نظر میں:
علامہ ابن تیمیہ نے تسبیح
کے سلسلہ میں فرمایا: انگلیوں سے تسبیح شمار کرنا یہ
سنت ہے، نیز کھجور کی گٹھلیوں سے اور کنکریوں سے شمار
کرنا بہتر ہے، صحابہ کرام
اسی طرح شمار کرتے تھے، خود آپ ا نے ام الموٴمنین کو اس طرح
کرتے دیکھااور اس کی تصویب بھی کی ، نیز
ابوہریرة
سے بھی اسی طرح کا عمل مروی ہے، نیزہ وہ تسبیح جو
لڑی میں پروئی جاتی ہے، اس کے سلسلہ میں فرمایا
یہ بہتر ہے ، ناپسندیدہ نہیں (مجموع الفتاوی)
علامہ ابن قیم نے فرمایا: انگلیوں سے تسبیح
شمار کرنا مشہور اور افضل ہے، (الوابل الصیب ۱/۱۴۳) انہوں نے تسبیح کو بدعت نہیں قرار دیا، نیز
علامہ شوکانی
فرماتے ہیں: حضرت سعد وصفیہ کی احادیث سے گٹھلیوں
اور کنکریوں سے شمار کرنا جائز ثابت ہورہا ہے، اسی طرح تسبیح
مشہور کے ذریعہ بھی، اس لیے کہ اس کا کوئی مقابل نہیں
ہے، اور آپ ا نے حضرت صفیہ
کے عمل پر نکیر بھی نہیں کی، (نیل الاوطار ۲/۳۶۶)
مشہور غیرمقلد عالم مولانا عبد
الرحمن مبارکپوری
نے علامہ شوکانی
کی عبارات سے استدلال کرتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا
ہے کہ تسبیح مشہور ذکر کرنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے،
اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، نیز اس سلسلہ میں
انہوں نے علامہ سیوطی
کے رسالہ المنحة فی السبحة کے حوالے سے کئی نقول پیش کیے،
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں (تحفة الاحوذی ۸/۳۸۶)
ماضی قریب کے مشہور عرب
عالم دین علامہ فوزان نے بھی تسبیح کے جواز کا فتوی دیا
ہے، وہ رقمطراز ہیں: وَیُبَاحُ اِسْتِعْمَالُ السُّبْحَةِ لّیُعَدَّ بِہ
الأذکارُ وَالتَّسْبِیْحَاتُ مِنْ غَیْرِ اِعْتِقَادِ أنَّ فِیْھَا
فَصِیْلَةٌ خَاصَّة (موٴلفات الفوزان ۲۵/۴۰) تسبیح کا استعمال اذکار وغیرہ کے لیے درست
ہے؛ البتہ اس میں کسی خاص فضیلت کا اعتقاد نہ رکھے۔
تسبیح کے سلسلہ میں مشہور
فقیہ علامہ ابن نجیم مصری، اور ابن عابدین شامی (متوفی ۱۲۵۲ھ) فرماتے ہیں:
آپ ا نے کنکریوں اور کھجور کی
گٹھلیوں کو دیکھ کر انکار نہیں فرمایا؛ بلکہ اس سے آپ نے
اور افضل کی طرف رہنمائی کی، اگر یہ چیز نا پسند
ہوتی تو آپ ا ضرور اس کو بیان کردیتے، پھر یہ اور اس جیسی
احادیث تسبیح مشہور کے استعمال کو اذکار کے شمار کرنے کے لیے
جائز قرار دیتی ہیں۔ (البحر الرائق ۴/۱۵۴،رد المحتار ۵/۵۴ شاملہ )۔
فقہاء ومحدثین کی ان تصریحات
اور اکابر امت کے اس عمل کے پیش نظر ہی علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) نے لکھا ہے کہ سلف اور خلف میں سے کسی سے بھی
تسبیح پر نکیر منقول نہیں ہے؛ بلکہ اکثر لوگ اسے استعمال کرتے
تھے، اور کوئی اسے نا پسند نہیں کرتا تھا، (الحاوی فی
الفتاوی ۳/۵) باب
المنحة) ، اس لیے طحطاوی نے ابن حجر کے حوالے سے لکھا ہے کہ تسبیح
کی روایت کھجور کی گھٹلیوں اور کنکریوں سے بہت سے
صحابہ سے مروی ہے حتی کہ بعض امہات الموٴمنین سے بھی؛
بلکہ آپ ا نے اسے دیکھ کر کوئی نکیر نہ کی، ذکر کے لیے
انگلیوں کا استعمال بہر صورت مستحسن ہے، اگر غلطی کا اندیشہ ہو
تو تسبیح کا استعمال اولیٰ ہے، (موسوعہ فقہیہ ۱۱/۲۸۴) اس لیے علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ جس شخص کا مطلوب ذکر میں
حضوری قلب ہو اور زبان کی بھی معیت رہے تو ایسے شخص
کے لیے تسبیح کا استعمال مستحب ہے، اگر تسبیح کی رنگت میں
اس کی دیگر چیزوں میں مشغول ہنے کا اندیشہ ہو تو اس
کے لیے تسبیح کا استعمال نا مناسب ہے(فیض القدیر ۴/۴۶۸)
تسبیح اور
اکابر:
اکابر صوفیاء ِکرام تسبیح
استعمال کرتے تھے، صوفیاء کرام ملت کے وہ معزز ین ہیں جن کے
روحانی اثرات سے دنیا معطر ومعمور ہوئی ہے، اب ان کے افعال کو
بلادلیل بدعت قرار دینا کہاں تک درست ہے، جنید بغدادی جو اکابر صوفیاء میں ہیں،
ان سے واردین نے سوال کیا کہ: کیا آپ اب بھی تسبیح
کے ذریعہ ذکر کرتے ہیں تو وہ جوابا فرماتے ہیں: طَرِیْقٌ وَصَلْتُ بِہ إلٰی رَبّی
لَا أُفَارِقُہ
(فیض القدیر۴/۴۶۸) کہ اس راستے کو اپنا کر ہمیں اپنے رب تک پہونچا ہوں اس کو
نہیں چھوڑ سکتا، نیز یہ بھی فرمایا کہ اس کو میں
نے ابتداء میں استعمال کیا ہے انتہاء میں نہیں چھوڑ سکتا،
اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا دل میری زبان
اور میرا ہاتھ تینوں ذکر میں مشغول ہوں(ایضاً)
مشہور عابدابومسلم خولانی کے ہاتھ
میں تسبیح ہوتی، اسے استعمال کیا کرتے تھے، ایک
مرتبہ سوتے ہوئے تسبیح لے کر سوگئے، تسبیح ہاتھ ہی میں رہ
گئی، پھر بیدار ہوئے تو تسبیح ذکر کرتے ہوئے گھمانے لگے، (الحاوی۲/۵)
عبد اللہ یونینی نے
اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی، پھر تسبیح لے کر ذکر
میں لگ گئے، اسی حال میں وفات پاگئے اور ہاتھ سے تسبیح بھی
نہ چھوٹی، (البدایہ والنہایہ ۱۳/۱۱۱)
فاطمہ بن حسین بن علی کے سلسلہ میں مذکور ہے کہ انھوں نے
دھاگے میں کچھ دانوں کو پرو رکھا تھا، جس سے وہ تسبیح پڑھا کرتی
تھیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ تسبیح کیا
ہی بہترین ذکر کو یادد لانے والی ہے۔ (نیل
الاوطار۲/۳۶۶)
حضرت ابودرداء کے پاس ایک صندوق میں عجوہ
کھجور کی گٹھلیاں رکھی تھیں، جب بھی ظہر کی
نماز ادا کرتے تو اسے نکال کر تسبیح پڑھا کرتے تھے، حضرت ابوہریرہ کے پاس ایک صندوق تھا جس میں
کنکریاں یا کھجور کی گٹھلیاں تھیں، جس سے وہ تسبیح
پڑھا کرتے تھے، شیخ عبد القادر جیلانی کے پاس ایک تسبیح تھی،
پڑھتے ہوئے ایک ایک دانہ ہٹایا کرتے تھے، تسبیح کے سلسلہ
میں ایک روایت مسلسل بھی ذکر کی گئی ہے، حسن
بصری، سری سقطی، جنید بغدادی، معروف کرخی،
عمر مکی، ابونصر عبدالوہاب، ابوبکر محمد بن علی سلمی، محمد بن
عبد اللہ بن احمد السمرقندی، ابوالفضل بن ناصر کو تسبیح کے استعمال
کنندگاں میں شمار کیا گیا ہے، (الحاوی للفتاوی السیوطی ۳/۵) باب المنحة فی السبحة،
ذکر کثیر
اور تسبیح:
ابوالدرداء بن عویمر روز آنہ ایک لاکھ مرتبہ تسبیح
پڑھا کرتے تھے، خالد بن معدان روزانہ چالیس ہزار مرتبہ تسبیح پڑھتے
تھے، اب یہ بات غور کرنے کی ہے کہ ایک لاکھ اور چالیس
ہزار کیسے انگلیوں پر گنتے تھے، لہٰذا وہ آلات کا استعمال کرتے
تھے، امام ترمذی نے روایت نقل کی ہے کہ عمر بن ہانی ہر دن ایک
ہزار رکعت نفل نماز پڑھتے اور ایک لاکھ تسبیح پڑھا کرتے، اس فصل میں
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ البانی صریح غلطی پر ہیں؛
بلکہ تسبیح کا انکار ایک نئی بدعت کو جنم دے رہا ہے۔
(وصول التہانی ص:۴۶)
اسی لیے فتوحاتِ ربانیہ
میں مذکورہے: بہر حال جب زیادہ مقدار میں ذکر کا ارادہ ہو اور
دوسری جانب اشتغال کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں
تسبیح کا استعمال افضل ہے، (الفتوحات الربانیہ ۱/ ۲۵۱)
نیز تسبیح کے فوائد میں
سے یہ مذکور ہے جب بھی آدمی کی نظر اس پرپڑے تو اللہ کے
ذکر کی یاد تازہ ہوتی ہے، اس سے ذکر پر مداومت وہمیشگی
ہوتی ہے، بعض لوگوں نے فرمایا: التسبیح قَرَدَة الشیطان، کہ تسبیح شیطان کے لیے کوڑا ہے، بعض اکابر
صوفیہ نے اس کا نام حبل الموصل (پہونچانے والی رسی) رکھا ہے،
بعض نے اس کا نام رابطة القلوب رکھا ہے، (الحاوی ۳/۵) بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ تم اللہ کا ذکر شمارکر کے
کرتے ہو؟ تو جواب دیا گیا کہ اللہ کا ذکر اس تعداد میں کرنا
چاہتا ہوں جس کا تذکرہ سنتِ مبارکہ میں آیا ہے، اگر اس کو انگلیوں
میں شمار کرنے لگوں تو ذکر کا خشوع جاتا رہے گا (الحاوی للسیوطی
۳/۵)
شیخ البانی
اور ان کے متبعین کے سلسلہ میں قولِ فیصل:
شیخ محمود فرماتے ہیں کہ شیخ
ناصر الدین البانی نے ناحق بات کہی، حدیث پر اس کے شایانِ
شان حکم نہیں لگایا، اہل حدیث کے نزدیک نامقبول ہونے کا
حکم لگایا، صحیح احادیث کو ضعیف قراردیا، اور ضعیف
کو صحیح قراردیا، اور موقوف ضعیف سے استدلال کیا؛ بلکہ اس
موضوع میں جس کا جو حق تھا اس سے اعراض کیا، اور صحابہ کرام کے فعل کو بدعت قراردیا، (مقدمہ
وصول التہانی ص:۳)
الغرض یہاں رک کر شیخ البانی
کے مقلدین اس بات پر غور کریں کہ ان کے علاوہ جن علماء کی باتوں
سے استشہاد کرنے میں وہ کبھی نہیں تھکتے؛ بلکہ وہ کبھی
ابن تیمیہ
کی تقلید کرتے ہوئے اپنے مقصد کی تبلیغ کرتے ہیں تو
کبھی ابن قیم
کے اقوال سے استدلال کرتے ہوئے اوروں کی بات کی تغلیط کرتے ہیں،
کبھی شوکانی
کی کتابوں سے احتجاج کرتے ہوئے اوروں کی تردید کرتے ہیں،
توکبھی شمس الحق عظیم آبادی کے دامن میں پناہ لیتے ہوئے
اوروں پر وار کرتے ہیں، کبھی عبد الرحمن مبارکپوری کے اقوال سے استدلال کرتے ہوئے دیگر
علماء کی باتوں کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہیں، ان مقتداوٴں
کے اقوال سے اعراض کرکے شیخ البانی کے قول پر وہ کیسے اعتماد
کررہے ہیں؟
حیرت وتعجب تو اس بات پر ہے کہ ان
کے مقابل البانی کا ان میں سے کسی سے بھی تقابل ممکن نہیں،
پھر وہ کیا اسباب ووجوہات ہیں کہ جن کی بنیاد پر تسبیح
کے سلسلہ میں شیخ البانی کے مقابلے میں اپنے علماء کے
اقوال کو ٹھکرایا جارہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ تمام ہی
افراد نے تسبیح کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔
تسبیح کا
غلط استعمال:
بعض وہ افراد جن کا مقصود دین وشریعت
نہیں؛ بلکہ ہواپرستی ہے جو شریعت کی آڑ میں اپنی
دوکان چلاتے ہیں، ایسے افراد اپنا حلیہ اس طرح پیش کرتے ہیں
کہ جس سے یہ محسوس ہو کہ دین کی تمام چیزوں کو انہوں نے ہی
اختیار کیا ہے، اس کے لیے مختلف طریقہٴ کار اپناتے
ہیں، امت کو گمراہ کرتے ہیں، انھیں میں ایک طریقہ
یہ بھی ہے کہ اپنے گلے میں مختلف قسم کے ہار ڈالتے ہیں،
جس میں تسبیح بھی ہوا کرتی ہے،اس کے ناپسندیدہ ہونے
میں کوئی کلام نہیں ہے؛ چنانچہ موٴلفات فوزان میں
ہے: جو تسبیح کو اپنے گردنوں میں زیورات وغیرہ کی
طرح ڈالتے ہیں یہ ناپسندیدہ ہے، اس میں ریاکاری
وتکلف بھی ہے (۲۵/۴۰)
علماء ِحق کے کسی بھی طبقہ
میں یہ صورت مروج نہیں، چندا فراد کے غلط استعمال کو لے کر اسے
بدعت قرار دینا، کہاں کی دانشمندی ہے، ہمیں اس کے غلط
استعمال پر نکیر کرنے کا برابر اختیار ہے، لیکن اس میں
حدود سے تجاوز کرنے کی گنجائش نہیں، اللہ تعالیٰ دین
میں افراط وتفریط سے ہماری حفاظت فرمائے آمین!
تسبیح کے سلسلہ میں عربی
میں یہ کتب دستیاب ہیں جو قابل مطالعہ ہیں،
”المِنحة فی السُبحة“ یہ علامہ جلال الدین سیوطی کے ”فتاوی حاوی“ میں ایک
رسالہ ہے، ایک کتاب ”ھدیة الابرار فی سُبحة الأذکار“ بھی ہے، علامہ سعید محمود ممدوح کی ایک
انتہائی اہم کتاب ہے ”وصولُ التھانی فی اثبات سنیة السبحة والرد
علی الألبانی“
اس میں علامہ سعید صاحب نے شیخ البانی کابہترین
انداز میں تعاقب کیا ہے، اور ان کی علمی خیانتوں کو
مکمل طور پر آشکارا کیا ہے، مخالفین کی جانب سے اس کا رد بھی
لکھا گیا؛ لیکن پھر اس کا بھی علامہ سعید نے رد لکھا، اور
تعاقب کیا، ”نُزْھَةُ
الفِکْر فی سُبحةِ الذکر“
یہ علامہ عبد الحی فرنگی محلی لکھنوٴی کا رسالہ ہے جس میں کئی نقول
کو جمع کیا گیا ہے ”ایقاد المصابیح لمشروعیة اتخاذ
المسابیح“ نام کی بھی ایک کتاب ہے، اسی طرح عبید
اللہ الہروی نے بھی شیخ البانی کا شاندار تعاقب کیا
ہے، جو لائقِ مطالعہ ہے۔
***
------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9 ،
جلد: 96 ، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء